ٹھہریں۔۔۔ اگر آپ ماں باپ ہیں تو یہ پوسٹ آپ کے لئے ہی ہے۔۔

 ماؤں کے لئے اہم گزارشات!

مائیں اپنی بچیوں کو پیدا ہونے سے لے کر شادی ہوجانے تک پل پل نظروں کے سامنے رکھیں۔ ماؤں سے انتہائی لاپرواہی ہوجاتی ہے اس معاملے میں۔

میں تو بچیوں کو اسکول یا مدرسہ بس یا وین پر یا پھر ذاتی ڈرائیور یا گھر کے دیگر محارم کے ہمراہ بھی بھیجنے کے حق میں نہیں ہوں الا یہ کہ محارم پر مکمل اعتماد ہو۔

صرف باپ بھائی ہی چھوڑنے جائیں اور لے کر آئیں۔ یا پھر مائیں ساتھ جائیں۔

آج کل کے حالات جتنے عجیب ہوچکے ہیں اتنا ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔

اسکول کالجز بھی محفوظ نہیں اساتذہ کے بھیس میں اللہ جانے کتنے بھیڑیے موجود ہیں۔

ایل جی ایس لاہور کا قصہ سب کے سامنے ہے۔ وہاں پر میری سٹوڈنٹس اور فرینڈز کی بچیاں بھی پڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے بھی سینئر کیمپس کے حالات بتائے۔

الحمدللہ یہ بچیاں اللہ کے فضل سے کسی کے ہتھے تو نہیں چڑھیں مگر جو ہوتا رہا ہے وہ اس سب سے باخبر ضرور ہیں۔ میں نے آنکھوں دیکھے حالات خود سنے ہیں۔

بہت بہت احتیاط کی ضرورت ہے اس حوالے سے اول تو پڑھائی کے لئے اسلامک سکولز کا انتخاب ضروری ہے وہاں کم ازکم بچیوں کی عزت تو محفوظ ہے۔

میں نے خود لاہور کے ٹاپ اسلامک سکولز میں پندرہ سال جاب کی ہے جو ایل جی ایس بیکن ہاؤس کے لیول کے ہی ہیں میں جانتی ہوں جتنے وہ محفوظ ہیں اتنے یہ بیکن ہاؤس وغیرہ نہیں ہیں۔

دوسرے نمبر پر بچیوں کے آنے جانے کا بندوبست محارم اور ماؤں کے علاوہ کوئی دوسرا نہ کریں۔

اس کے علاوہ بچیوں کو پورے وقت پر اسکول چھوڑیں اور چھٹی ہوتے ہی وہاں سے پک کریں۔

مجھے جاب کے دوران خود اس بات کی والدین سے شدید شکایت رہی کہ بچوں کو چھٹی کے بعد ایک ایک گھنٹہ لیٹ لینے آرہے ہوتے تھے۔

ہم ٹیچرز کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بیس منٹ یا آدھا گھنٹہ ہم ویٹ کریں اس کے بعد اسکول کی آیا باجیز اور گارڈ کے حوالے بچے کرکے ہم جاسکتے تھے کیونکہ والدین کو سختی سے تاکید ہوتی تھی کہ آدھے گھنٹے سے اوپر نہ لیٹ ہوں ورنہ ڈیوٹی ٹیچر گھر چلی جائیگی اور آپ کا بچہ آیا باجی کے حوالے ہوگا۔ 

لیکن اس کے باوجود بہت سے والدین جو دین کی سمجھ بوجھ اچھی طرح سے رکھتے تھے وہ تک لاپرواہی کا مظاہرہ کرجاتے تھے۔

آئے دن ان کے گھر کالز جاتی تھیں مگر وہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ میری عادت تھی جب تک آخری بچہ بھی نہ چلا جائے میں گھر نہیں جاتی تھی۔

آیا باجیز اور گارڈز پر خالی سکول میں کسی طور پر میں اعتماد نہیں کرسکتی تھی۔ آیا باجیز بھی سب چلی جاتی ہیں سوائے ایک گارڈ اور ایک آیا باجی کے جو آخری بچے کے جانے کے بعد ہی جاسکتے ہیں۔

سو یہ بھی مناسب نہیں ہے خالی سکول میں کہ بچے ان کے پاس رہیں۔

پھر مائیں ڈرائیور کو لینے بھیج دیتی تھیں۔ ایک قصہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور میری وجہ سے ایک ماں کی بچی کو اللہ نے بچالیا۔

ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی کے دو تین بچے ایک سکول میں ہی پڑھ رہے ہوں تو سب سے چھوٹے کو جلدی چھٹی ہوجاتی ہے مائیں ڈرائیور سے کہتی ہیں بچے یا بچی کو پک کر کے آپ گاڑی میں ہی ویٹ کرلو آدھے گھنٹے بعد دوسرے کی چھٹی ہوگی تو ساتھ ہی لیتے آنا۔

اسی طرح وہ معصوم پانچ سال کی بچی بھی اپنے ڈرائیور کیساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی۔

اس کے ڈرائیور کے علم میں نہیں تھا کہ ساتھ والی خالی گاڑی میں پیچھے کوئی بیٹھا ہے۔

میں اس گاڑی میں بیٹھی اپنی ایک کولیگ کا ویٹ کر رہی تھی۔ جنہوں نے گاڑی کی چابی مجھے دے کر بھیج دیا تھا اور خود وہ پرنسپل کے آفس میں تھیں۔

ڈرائیور جب گیٹ پر بچی کو لینے گیا میں پیچھے سے آکر برابر والی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ڈرائیور آیا اسے نہیں پتہ لگا کہ کوئی آچکا ہے کیونکہ گاڑی کے پیچھے والے شیشے کسی حد تک بلیک ہی تھے۔

جہاں سے میں انہیں دیکھ سکتی تھی مگر وہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میں نے جو آگے ڈرائیور کی گود میں بیٹھی بچی کے ساتھ اس کی حرکتیں دیکھیں میری جان ہی نکل گئی۔

مجھے ماؤف ہوتے زہن کے ساتھ فوری یہ ہی سمجھ آیا کہ میں نے اپنے سکول کی رسپشن پر بیٹھی سٹاف ممبر کو کال ملائی اور انہیں یہ ساری صورت حال بہت آہستہ سے بتائی۔

انہوں نے پرنسپل کے آفس میں بتایا اور وہاں سے بچی کی ماما کو کال گئی بچی کو پرنسپل نے ایک سر کو بھیج کر اپنے آفس بلوالیا کوئی بہانہ کر کے اور اس کے ڈرائیور کو واپس گھر بھیج دیا۔

پھر بچی کی ماما روتی ہوئی آئیں اور بچی کو لے کر جب گھر جاکرانہوں نے پوچھا تو مزید بہت سارے انکشافات اس سے بڑی بچی نے کئے۔

میں تو اس دن ایک پارٹ ٹائم ٹیچر کے ساتھ شارٹ لیو پر جارہی تھی تو میں نے دیکھ لیا ورنہ اسوقت تو پارکنگ بھی سنسان ہوتی ہے۔

اس دن کے بعد سے میں بہت ڈر گئی تھی اور ڈرائیورز کے حق میں بالکل بھی نہیں رہی۔ نہ اسکول وین کے۔

اسی طرح کبھی بھی بچی یا بچے کو اکیلے کسی بھی شاپ پر نہ بھیجیں۔

کہیں پر رات رہنے کے لئے نہ چھوڑیں چاہے وہ آپ کی سگی بہن یا بھائی کا ہی گھر کیوں نہ ہو۔ کیونکہ کسی وقت گھر کے بڑے مصروف ہوتے ہیں وہ اس طرح سے نظر نہیں رکھ سکتے جس طرح ماں خود نظر رکھ سکتی ہے۔

بچی ہو یا بچہ آج کل دونوں کا سایہ بن کر رہنے کی شدید ضرورت ہے جس سے ہم آج بھی اتنے واقعات ہوجانے کے بعد لاپرواہی برت رہے ہیں۔

اللہ پاک ہمارے بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین


بقلم تحریر:  ام حسیب و سارہ (بشری حفیظ الدین )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا آپ بھی چپ رہیں گے۔۔۔۔صبا قمر اور بلال کا ایک اور کارنامہ 😡

عید الاضحی ۔۔۔۔۔۔منافقت اور یہود وکفار